موت اور تکالیف خُد ا کی تخلیق کا حصہ کیوں ہیں؟

ہر روز ہمارا سامنا کسی نہ کسی نئے المیے سے ہوتا ہے۔ کبھی سننے کو ملتا ہے کہ کوئی ننھا بچّہ خون کے کینسر کیساتھ لڑ رہا ہے، وہ بہت ہی پیچیدہ قسم کے لمبے طبّی مراحل میں سے گزرتا ہے اور بالآخر اپنی ماں کے بازوؤں میں دم توڑ دیتا ہے۔ ایک نیا شادی شدہ جوڑا ہنی مون کے لئے جاتا ہےاور نشے میں دُھت کسی ڈرائیور کی لاپرواہی کی وجہ سے مارا جاتا ہے۔ ایک ایماندار مشنری خاندان پر وہی لوگ حملہ کر کے اُنہیں ہلاک کر ڈالتے ہیں جن کے درمیان وہ خدمت کرنے گئے تھے۔ سینکڑوں کے حساب سے لوگ سونامی میں ڈوب مرتے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد زلزلے کی وجہ سے منوں مٹی تلے دفن ہو جاتی ہے۔ اگر خُداحقیقت میں ہم سے محبت اور ہماری پرواہ کرتا ہے تو پھر یہ سارے حادثات کا وقوع پذیر ہونا کیسے ممکن ہے؟کیا وہ تکالیف اور مصیبتوں کا خُدا ہے؟

بُری چیزیں کیوں وقوع پذیر ہوتی ہیں؟زمانوں سے انسان قادرِ مطلق اور محبت کرنے والے خُدا کی ذات کی سمجھ بوجھ اور دُنیا میں نہ ختم ہونے والی تمام تکالیف کے درمیان مصالحت کروانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اِس کشمکش کی ایک واضح مثال میڈیا مغل ٹیڈ ٹرنر ہے۔ بہت تکلیف دہ بیماری میں سے گزرنے کے بعد وفات پانے والی اپنی بہن کی موت کے بعد ٹیڈ ٹرنر نے خُدا میں اپنا ایمان کھود یا اور اُس وقت اُس نے کہا کہ "مجھے یہ سکھایا گیا تھا کہ خُدا محبت ہے اور خُدا قادرِ مطق ہے۔اور میَں اِس بات کو سمجھنے سےبالکل قاصر ہوں کہ ایک ایسا خُدا کسی بالکل معصوم انسان کی زندگی میں ایسی مصیبتیں آنے کی اجازت کیونکر دے سکتا ہے؟ 1

کیا انسانی تکالیف کے لئے خُدا کی ذات ذمہ دار ہے؟کیا خُدا ظالم، متلون مزاج یا کینہ پرور ہے یا پھر وہ اِس قدر کمزور ہے کہ اپنے لوگوں کو تکالیف اور مصیبتوں سے بچا نہیں سکتا؟اگر خُدا حقیقت میں حاکم ِ کل ہے تو پھر وہ کس طرح کسی ایسے شخص کو جسے وہ پیار کرتا ہو تکلیف سہنے اور مصیبتیں اُٹھانے دے سکتا ہے؟

مصائب اور موت زدہ دُنیا

ہر روز ہمارا سامنا کسی نہ کسی نئے المیے سے ہوتا ہے۔ کبھی سننے کو ملتا ہے کہ کوئی ننھا بچّہ خون کے کینسر کیساتھ لڑ رہا ہے، وہ بہت ہی پیچیدہ قسم کے لمبے طبّی مراحل میں سے گزرتا ہے اور بالآخر اپنی ماں کے بازوؤں میں دم توڑ دیتا ہے۔ ایک نیا شادی شدہ جوڑا ہنی مون کے لئے جاتا ہےاور نشے میں دُھت کسی ڈرائیور کی لاپرواہی کی وجہ سے مارا جاتا ہے۔ ایک ایماندار مشنری خاندان پر وہی لوگ حملہ کر کے اُنہیں ہلاک کر ڈالتے ہیں جن کے درمیان وہ خدمت کرنے گئے تھے۔ سینکڑوں کے حساب سے لوگ سونامی میں ڈوب مرتے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد زلزلے کی وجہ سے منوں مٹی تلے دفن ہو جاتی ہے۔ اگر خُداحقیقت میں ہم سے محبت اور ہماری پرواہ کرتا ہے تو پھر یہ سارے حادثات کا وقوع پذیر ہونا کیسے ممکن ہے؟کیا وہ تکالیف اور مصیبتوں کا خُدا ہے؟

حادثات کے جواب میں انسان کا عمومی ردعمل خُدا کو الزام دینا ہوتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے چارلس ڈاروّن نے اپنی پیاری بیٹی اؔینی کی وفات کے موقع پر کیا۔

اینی کی درناک موت نے کائنات کے اخلاقی اور انصاف پسند ہونے کے بارے میں چارلس کے ایمان کی دھجیاں بکھیر دیں۔ بعد میں اُس نے یہ کہا کہ اُس دردناک دور کے تجربے نے اُس کے مسیحیت پر ایمان کے حوالے سے آخری ماتمی گھنٹی بجا دی تھی۔۔۔اِس کے بعد اُس نے ایک لادین شخص کے طوراپنے آپ کو دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ 2

کیا یہ مناسب رد عمل ہے؟ بائبل میں پیش کردہ تاریخ کا درست پہلو سے لیا گیا جائزہ اِس سوال کا جواب پیش کرتا ہے۔

Angry at God

کیا خُدا کی تخلیق واقعی ہی "بہت اچھی" تھی

ابتدا میں قریباً 6000سال پہلے خُدا نے اِس کائنات اور اِس کے اندر موجود ہر ایک چیز کوچھ حقیقی دنوں کے دورانیے میں تخلیق کیا۔چھٹے دن اپنے تخلیقی عمل کے اختتام پر خُدا نے ہر ایک چیز پر جو اُس نے تخلیق کی تھی نظر کی اور وہ سب"واقعی ہی بہت اچھا تھا"۔(پیدایش 1باب31آیت)

چونکہ خُدا کی تخلیق بہت اچھی تھی، اِس لئے اُس میں اُس وقت کوئی داغ، عیب، بیماری، پریشانی و تکلیف اور موت نہیں تھی۔ اُس وقت صرف بہترین جانداروں کی بقاء یا بچے رہنے جیسی کوئی بات نہیں تھی جیسے کہ آج نظریہ ارتقاء تعلیم دیتا ہے۔ اُس وقت جانور ایک دوسرے کا شکار نہیں کرتے تھے اور پہلے انسان یعنی آدم اور حوا ؔاپنی خوراک کے لئے جانوروں کو ذبح نہیں کرتے تھے۔ ابتدائی تخلیق ایک خوبصورت مقام پر ایک بہت ہی خوبصورت چیز تھی، سب کچھ زندگی اور خوشی سے بھرپور اپنے خالقِ حقیقی کی حضوری میں موجود تھا۔

اُس وقت جانوراورانسان دونوں ہی سبزہ خور تھے۔ پیدایش 1باب 29-30آیات میں خُداوند نے کہا کہ "دیکھو میَں تمام رُوی ِ زمین کی کل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اُس کا بیج دار پھل ہو تم کو دیتا ہوں یہ تمہارے کھانے کو ہوں۔اورزمین کے کل جانوروں کے لئےاورہوا کے کل پرندوں کے لئے اور اُن سب کے لئے جو زمین پر رینگنے والے ہیں جن میں زندگی کا دم ہےکل ہری بوٹیاں کھانے کو دیتا ہوں ۔" یہ حوالہ بڑے واضح طور پر یہ دکھاتا ہے کہ خُدا کی "بہت اچھی" تخلیق میں جانور ایک دوسرے کو نہیں کھاتے تھے(پس اُس وقت جانوروں کی موت نہیں ہوتی تھی)، کیونکہ خُدا نے آدم، حوا ؔاور تمام جانوروں کو کھانے کے لئےصرف پودے اور سبزیاں ہی دی تھیں۔ (پیدایش 9باب 3آیت کےمطابق تخلیق کےقریباً 1600سال بعد- نوح کے عالمگیر طوفان کے بعدخُدا کی طرف سے انسان کو جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت دی گئی تھی۔)

کیونکہ ایک پودے کو کھانے سے اُس پودے کی موت واقع ہو جاتی ہے اِس لئے کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ موت ابتدائی طور پرتخلیق کا حصہ تھی، جبکہ بائبل پودوں اور جانوروں کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ اِس فرق کا اظہار عبرانی لفظ 'نفش'(اُردو ترجمہ نفس یا دَم )کی بدولت ہوتا ہےجو زندگی کے اُس پہلو کو اجاگر کرتا ہے جس کا تعلق صرف جانوروں اور انسانوں کے ساتھ ہے۔ نفش کا ترجمہ"زندگی کا دم رکھنے والے" یا "جانداروں"کے طور پر بھی کیا جا سکتا ہے(دیکھئے پیدایش 1باب20-21، 24آیات)۔ پودوں میں دیگر جانداروں کی طرح سانس لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی اِس لئے کلام کی رُو سے وہ نہیں مرتے۔

ابتدائی تخلیق"بہت اچھی "تھی۔ استثنا 32باب4آیت میں موسیٰ کےمطابق"اُسکی صنعت کامل ہے"۔ یقیناً اب تمام چیزیں بالکل پہلے کی طرح نہیں ہیں۔

ہم اب کیوں مرتے ہیں؟

اگر اُس وقت جب خُدا نے اپنے تخلیق کے کام کو ختم کیااور اپنی تمام تخلیق کو "بہت اچھا" قرار دیا، انسانوں اور جانوروں کی اموات نہیں ہوتی تھیں تو پھر ہم اب کیوں مرتے ہیں؟ہم آج موت کو اپنےچاروں طرف دیکھتے ہیں۔ مخلوقات کے اندر اتنی بڑی تبدیلی کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرورت ہوگی-اور وہ وجہ گناہ تھی۔

ایک انسان کے خُدا کی مرضی کے خلاف بغاوت کرنے کے باعث خُدا کی مخلوقات کے اندر موت آئی۔

خُدا نے آدم اور حوا ؔکو ایک کامل فردوس میں رکھا۔ اُن کا خالق ہونے کے ناطے خُدا کو اُن پر پورا پورا اختیار حاصل تھا۔ اپنے اُس اختیار کی بدولت خُدا نے آدم کو ایک حکم دیا: "لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھاناکیونکہ جس روز تونے اُس میں سے کھایا تو مرا۔" (پیدایش 2باب17آیت)

چھٹےروزتخلیق کام کے اختتام پرجب خُدا نےاپنی ساری تخلیق کو "بہت اچھا" قرار دیا، اُس کے کچھ عرصہ بعدخُدا کے ایک فرشتے نےجس کا نام لوسیفر تھاخُدا کے خلاف بغاوت کر دی اور بہت سارے دیگر فرشتگان کوبھی اپنے ساتھ ملالیا۔3 پھر لوسیفر یعنی ابلیس نے سانپ کا روپ دھار کر حوؔا کو آزمائش میں ڈالا کہ وہ اُس درخت کا پھل کھائے جسے کھانے سے خُدا نے اُنہیں منع کیا ہوا تھا۔آدم اور حواؔ دونوں نے ہی اُس پھل میں سے لیکر کھا لیا۔اُن کے عمل کا نتیجہ اُسی سزا کے طور پرنکلا جس کے بارے میں خُدا نے اُنہیں پہلے سے خبردار کر رکھا تھا۔خُدا قدوس ہے اور وہ اپنی حضوری میں گناہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔منصف خالق نےبجا طور پر اپنے اُس وعدے کی پاسداری کی جس کے مطابق نافرمانی کی سزادی جانی تھی۔ایک انسان کے خُدا کی مرضی کےخلاف بغاوت کرنے کے باعث خُدا کی مخلوقات کے اندر موت آئی۔

پشیمان اور خوفزدہ آدم اور حوؔا نے انجیر کے پتوں کی لنگیاں بنا کراپنے گناہ کےاثرات سےبچنے کی کوشش کی، لیکن جو کچھ اُنہوں نے کر دیا تھا وہ خود اُسے نہیں ڈھانپ سکتے تھے۔اُنہیں اپنے گناہوں کو ڈھانپنے کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت تھی۔ عبرانیوں کے مصنف کے مطابق، "بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی۔"(9باب 22آیت)۔ خُدا کے حضور اُن کے گناہوں کو ڈھانپنے کے لئے خون کی قربانی کی ضرورت تھی۔

گناہ کے ہولناک نتائج کی تصویر کشی کرنے کے لئے خُدا نے ایک جانور کو ذبح کیا اور آدم اور حوؔا کے لئے چمڑے کے کُرتے بنائے۔ کلام میں ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس قسم کے جانور کو ذبح کیا گیا تھا، لیکن غالباً یہ ایک برّہ تھا جو یسوع کی ذات کی علامت ہے جو کہ خُدا کا برّہ ہے جس نے دُنیا کے گناہوں کو اُٹھا لے جانے کے لئے اپنا خون بہایا۔

پیدایش 3باب یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ زمین بھی لعنتی ہوگئی تھی۔ کانٹے اور اونٹ کٹارے ابھی زمین کا حصہ تھے۔جانور بھی لعنت زدہ ہو گئے اورسانپ اُن میں سب سے زیادہ ملعون ٹھہرا۔ ابھی دُنیا کامل نہ رہی تھی بلکہ وہ گناہ کی بدولت لعنتی ہو چکی تھی۔ پہلے جو تخلیق کامل تھی ابھی اُس کے اندر موت اور مصیبتوں کا بسیرا تھا۔

اِس سب کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے؟

اگر خُدا کی نافرمانی کرنا آدم کا فیصلہ تھا اور اُس وجہ سے گناہ دُنیا میں آیا تو پھر اُس کی وجہ سے ہمیں سزا کیوں برداشت کرنی پڑتی ہے؟ آدم اورحوا کے گناہ کرنے اور باغِ عدن سے نکالے جانےکے بعد(پیدایش 3باب20-24آیات)اُنکی اولاد پیدا ہوئی۔ ہر ایک بچے کی فطرت آدم کی سی تھی اور ہر ایک بچےنے اپنے خالق خُدا کے خلاف بغاوت کی۔ ہر ایک انسان آدم اور حوا کی اولاد ہے اور ہر ایک اُسی مسئلے یعنی گناہ آلود فطرت کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔

اگر ہم اپنی ذات کے ساتھ دیانتداری برتیں تو ہمیں یہ احساس ہوگا کہ آدم ہم سب کا حقیقی نمائندہ ہے۔ اگر ایک کامل انسان نے ایک کامل مقام پر خُدا کے قوانین کی نافرمانی کرنے کا ارادہ کیا تو ہم میں سے کوئی بھی اُس سے بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکتا ۔ پولس رسول لکھتا ہے کہ "پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔"(رومیوں 5باب12آیت)

آدم کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہم سب گناہ آلود فطرت رکھتے ہیں ۔ہم سب نے کسی نہ کسی موقعے پر خُدا کے کسی نہ کیس حکم کی نافرمانی کی ہے اِس لئے ہم سب موت اور جہنم میںابدی سزا کےمستحق ہیں۔ ہمیں اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی خُدا کی نظر میں بے گناہ یا معصوم نہیں ہیں۔ رومیوں 3 باب 23آیت میں مرقوم ہے کہ "اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں۔" ہم میں سے ایک بھی اِس کائنات کے خالق کے حضور کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہےکیونکہ ایسا کرنے کی بدولت ہم اپنی گناہ آلود اور بغاوتی فطرت کو اُ سکی حضوری میں لیکر آئیں گے۔

جتنی بھی افسوسناک باتیں جو ہمارے اردگرد اور ہمارے ساتھ واقع ہوتی ہیں وہ ہمارے لئے اِس بات کی یاد دہانی ہیں کہ گناہ کے بُرے نتائج ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ اِس دُنیا کو ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔

ابتدا میں خُدا نے اپنی تخلیق کو اُس کی کامل حالت میں برقرار رکھا۔ اسرائیل قوم کا بیان میں بھٹکنا اور آوارہ گردی کرناہمیں اِس چیز کی ایک جھلک دکھاتا ہے کہ کاملیت کی حالت میں مخلوقات کیسی ہونگی۔ جب چالیس سالوں تک وہ دشت میں خیمہ زن رہے تو نہ تو اُن کےتن پر کپڑے پرانے ہوئے اور نہ ہی اُن کے پاؤں سوجے (استثنا 8باب 4آیت)۔ خُداقادرِ مطلق اور اپنی مخلوقات کو قیام بخشنے اوراُنکی حفاظت کرنے کے قابل ہے۔

جس وقت آدم نے گناہ کیا اُس وقت بہرحال خُداوند نے زمین کو لعنت زدہ ٹھہرایا۔ کائنات کے جواہر میں تبدیلی پیدا ہو گئی تھی اور اُس تبدیلی کے ساتھ خُدا نے کائنات کو اُس گناہ آلوداور لعنت زدہ حالت میں قائم رہنے دیا۔ گنا ہ کے اثر کی وجہ سے تمام کی تمام کائنات ابھی دکھ میں میں مبتلا ہے۔ (رومیوں 8باب 22آیت)

جتنی بھی افسوسناک باتیں(جیسے کہ کسی عزیز کی موت، سونامی جو ہزاروں کی موت کا سبب بنتاہے، طوفان جو بہت سارے لوگوں کی موت اور بے گھر ہونے کا سبب بنتے ہیں وغیرہ) جو ہمارے اردگرد اور ہمارے ساتھ واقع ہوتی ہیں وہ ہمارے لئے اِس بات کی یاد دہانی ہیں کہ گناہ کے بُرے نتائج ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ اِس دُنیا کو ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔

تمام مخلوقات خُدا کی مرضی سے تھیں (مکاشفہ 4باب 11آیت)لیکن اُ ن میں سےاُسے سب سے زیادہ عزیز انسان تھے۔ وہ اِس کائنات کے زوال اور بگاڑ کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں گناہ کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ اگر ہم اُس مالک کے ہاتھوں اپنے گناہوں کے انجام کا تجربہ نہ کریں تو ہم کبھی بھی اپنی زندگی میں نجات کی ضرورت کو نہیں سمجھ پائیں گےاور نہ ہی ہم اُس کی طرف سے عنائت کردہ رحم کو قبول کر پائیں گے۔

زیادہ تر لوگ بڑی آسانی کیساتھ اِس بات کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ دُنیا کے ساتھ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے، ہمیں اِس بات کا بھی اندازہ اور علم ہونا چاہیے کہ ایک ایسی ذات ہے جو گناہ کے مسئلے، موت اور مصیبتوں پر غالب آئی ہے اور وہ شخصیت ہے-یسوع مسیح۔

کیا کچھ اُمید باقی ہے؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ گناہ کا انجام اِس گناہ آلود دُنیا میں زندگی گزارنے سے بہت زیادہ بُرا اور بھیانک ہے۔ اِس گناہ سے بھری ہوئی دُنیا اور مخلوقات کے درمیان زندگی گزارنے کے بعدہمیں جسمانی طور پر مرنا پڑتا ہے اور اُس کےبعدوہ بھیانک سزا پانی ہوتی ہے جس کی مانند کوئی کسی بھی چیز کو ہم ابھی جانتے تک ہیں:یعنی دوسری موت۔ یوحنا رسول آگ کی ایک جھیل کے بارے میں بتاتا ہے جو "دوسری موت"کہلاتی ہےاور اُن سب کی منتظر ہے جن کے نام کتابِ حیات میں نہیں لکھے ہوئے۔ (مکاشفہ 20باب 14-15آیات)یہ دوسری موت ہمارے گناہوں کی حتمی سزا ہے ۔

اگرچہ ہم نے اُس کے خلاف بغاوت کی ہے اور اپنے اوپر سزا لائے ہیں، لیکن خُدا اپنے بچّوں سے پیار کرتا ہے اور ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ وہ ابدیت جہنم میں گزاریں۔ہمارے رحیم خالق نے ایسی راہ فراہم کی ہے جس پر چلنے سے ہم اُس کے ساتھ میل ملاپ اور صلح کر سکتے ہیں اور گناہ کی ہولناک سزا سے بچ سکتے ہیں۔ گناہ سے چھٹکارے کی یہ راہ یسوع مسیح کی موت اور اُس کے جی اُٹھنے کے وسیلے سے ہے۔

یسوع مسیح جو کہ خُدا ہے، اِس زمین پر مجسم ہو کر انسان کے روپ میں آیا، اُس نے گناہ سے مبّرہ زندگی گزاری اور پھر گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لئے اپنی جان دی۔ پولس رسول ہمیں بتاتا ہے کہ" غرض جیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہوا جس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا ویسا ہی راستبازی کے ایک کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جس سے راست باز ٹھہر کر زندگی پائیں۔ " (رومیوں 5باب 18آیت)

خُدا منصف ہے اور اُس نے انسان کو بجا طور پر سزا کا حکم سنایا ہے، پس ہمیں وہ سزا ملی جس کے ہم مستحق ہیں۔ بہرحال خُداہمارے ساتھ اپنی محبت کی وجہ سےاپنے فضل کو بروئے کار لایا، اور ہماری سزا کو اپنے اوپر لیکر ہمارے گناہوں کا کفارہ دیا۔

حوصلہ رکھیں! یسوع قبر میں پڑا نہیں رہا تھا۔ اُس نے دفن ہونے کے تین دن بعد مردُوں میں سے جی اُٹھ کر یہ ثابت کیا کہ اُسے موت پر اختیار حاصل ہے۔ کیونکہ یسوع نے بڑے واضح طور پر موت پر اپنے اختیار کا مظاہرہ کیا اِس لئے وہ سب جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں اِس بات کو جان سکتے ہیں کہ وہ بھی ہمیشہ تک زندہ رہیں گے اور اُن پر موت کے ڈنگ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ درحقیقت بائبل یہ بیان کرتی ہے کہ ،

جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لقمہ ہو گئی۔ اَے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اَے موت تیرا ڈنگ کہاں رہا؟

جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لقمہ ہو گئی۔ اَے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اَے موت تیرا ڈنگ کہاں رہا؟

(1کرنتھیوں 15باب 54-55آیات)

مسیح یسوع میں جنہوں نے ابدی زندگی کا مفت تحفہ حاصل کیا ہے وہ اُس کے ساتھ ابدی زندگی ایک کامل اور دکھ درد سے پاک جگہ پر گزارنے کی آس رکھ سکتے ہیں(مکاشفہ 21 باب 24آیت)جیسے کہ پولس رسول نے لکھا ہے کہ

کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے

نہیں، خُدا کی بخشش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔

(افسیوں 2باب8-9آیات)

بہت سارے لوگ یہ تجویز کرتے ہیں کہ اگر خُدا حقیقت میں ہم سے پیار کرتا تو وہ ہمیں کسی ایسی جگہ پر رکھتا جہاں پر ہمیں کوئی بھی دکھ دینے والی چیز چھو نہ سکتی۔ بہرحال ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک بار ایسا کر چکا ہے اور آدم نے اُس کی مرضی کے خلاف بغاوت کی۔ اگر ہمیں بھی ایسا موقع دیا جائے تو ہم سب بھی یقینی طور پر ایسا ہی کریں گے۔ خُدا نے دُنیا کے لئے اپنی محبت کا اظہار اُس کی خاطر جان دیکر اور پھر مرُدوں میں سے جی اُٹھ کر دے دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اُس سے ابدی زندگی کا مفت تحفہ قبول کرتے ہیں و ہ اُس کے ساتھ اپنی ابدیت گزاریں گے۔

اگر ابدیت کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو وہ وقت جو ہم اِس لعنت زدہ دُنیا میں گزارتے ہیں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ خُدا اُن تمام لوگوں کو جو اُس کی طرف سے پیش کردہ نجات کو قبول کرتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک کامل مقام پر لے جائے گا اور یوں وہ اپنی محبت کے اظہارکو تکمیل بخشے گا۔

تمام چیزوں کی بحالی

The Fall and final restoration

بائبل کے بیان کے مطابق موت وہ آخری دشمن ہے جسے نیست کیا جائے گا۔(1کرنتھیوں 15باب 26آیت)۔ مکاشفہ 21 باب 4 آیت بیان کرتی ہے کہ "اور وہ (خُدا) اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ، نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔"وہ جنہوں نے اُسکی نجات کو قبول کیا ہے ابھی اُس وقت کے منتظر ہیں جب خُدا لعنت کو منسوخ کر کے ساری کائنات کو کامل حالت میں پھر بحال کر دے گابالکل اُسی طرح جیسے یہ پہلے تھی جب انسان نے ابھی گناہ نہیں کیا تھا۔ (مکاشفہ 22باب 3آیت)

خُداوند کی اپنے بچّوں کے لئے محبت صرف یہاں تک ہی محدود نہیں کہ وہ اُن کے گناہوں کی خاطر اپنی جان دے،لیکن اُس نے اِس تباہ حال لعنت زدہ زمین کے مسئلے کو بھی حل کرنے کے لئے نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کا بھی وعدہ کیا ہوا ہے(مکاشفہ21باب 1آیت)۔ بالکل اُسی طرح جیسے پہلا آدم اِس دُنیا میں موت لیکر آیا، یسوع جو کہ پچھلا آدم ہے وہ اِس دُنیا میں از سر نو زندگی اوربحالی لیکر آتا ہے۔جیسے کہ پولس رسول لکھتا ہے کہ:

چنانچہ لکھا ہے کہ پہلا آدمی یعنی آدم زندہ نفس بنا۔ پچھلا آدم زندگی بخشنے والی رُوح بنا۔(1کرنتھیوں 15باب45آیت)

تاریخ کا دوسرا پہلو

وہ جو خالقِ خُدا کو رد کر تے ہیں اُنہیں ضرورت ہے کہ وہ اِس کائنات کے وجود میں آنے کی وجہ کو بیان کریں ۔ نظریہ ارتقاء کے حامی اور بہت سارے دیگر جو کائنات اور زمین کی لمبی عمر پر یقین رکھتے ہیں یہ مانتے ہیں کہ 13-14بلین سال پہلے ایک بہت ہی شدید دھماکےجسے بگ بینگ کے طور پر جانا جاتا ہےکی بدولت یہ کائنات خود بخود وجود میں آگئی تھی ۔ کہکشائیں، ستارے اور سیارےمادے کی صورتوں میں نمودار ہوئے، سارے کائنات کے اندر پھیل گئے، ٹھنڈے ہو کر مختلف نظاموں کیساتھ پیوستہ ہو گئے۔ قریباً پانچ بلین سال پہلے زمین نے اپنے آپ کو تشکیل دینا شروع کیا۔ مانا جاتا ہے کہ ایک بلین سالوں تک زمین ٹھنڈی ہوتی رہی، اِسکی سطح پر پانی پیدا ہو گیا، اور اُس پہلے سمندر کے اندر مختلف مالیکیول پیدا ہو کر باہمی طور پر مربوط ہونا شروع ہو گئے اور یوں یک خلوی زندگی کا آغاز ہوا۔

The evolutionary story

نظریہ ارتقاء کے کچھ حامیوں کے مطابق ماحولیاتی دباؤاور دیگر مختلف قوتیں اوربے سمت مالیکیولی تبدل کچھ نامیاتی اجسام کی بقاء کا باعث بنا۔ یہ نامیاتی اجسام یا عضویےدرجہ بدرجہ تبدیل ہوتے ہوئے ترقی کر کے پیچیدہ عضویوں کی شکل اختیار کر گئے۔ مضبوط ترین نامیاتی اجسام اپنے وجود کو قائم رکھ سکے اور افزائش نسل بھی کر پائے، لیکن کمزور نامیاتی اجسام یا تو خود ہی مر گئے یا پھر وہ طاقتور جانوروں کا شکار ہو گئے۔

اِس بے رحمانہ سلسلے سے بالآخر بندر نما مخلوق وجود میں آئی جو ارتقاء پذیر ہونے کے بعد انسان بن گئی۔ پس انسان تمام مخلوقات میں سے اب تک حتمی پیداوار ہےجو اِن مخلوقات کے کئی ملین سالوں تک موت اور تکالیف میں سے گزرنے کے بعد وجود میں آئی۔

فطرت پرستوں کا یہ نظریہ فوسلوں کے ریکارڈ کو اِس چیز کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ مخلوقات کئی ملین سالوں کا عرصہ گزرنے کے بعدبلند درجہ ہوتی چلی گئیں۔ یہ نظریہ سکھاتا ہے کہ فوسلوں کا ریکارڈ اصل میں کئی ملین سالوں کے دوران بیماریوں، جدوجہد اور موت کا ریکارڈ ہے۔نظریہ ارتقاء کے مقبولِ عام حامی مرحوم کارل سیگن نے ایک بار یہ کہا تھا کہ "ارتقاء کا راز در اصل وقت اور موت ہے۔" ارتقاء کے لئے قتل و غارت، مسلسل جدوجہد اور موت سے بھر پور کئی ملین سال درکار ہیں۔ 4

کیا یہ واقعی ایک مسئلہ ہے؟

بائبل بیان کرتی ہے کہ موت انسان کے گناہ کی بدولت آئی۔ ارتقاء کا نظریہ کہتا ہے کہ موت ہمیشہ ہی سے فطرت کا حصہ تھی۔ کیا یہ دونوں باتیں سچ ہو سکتی ہیں؟ یقیناًنہیں!

Very good?

اگر فوسلوں کا ریکارڈزمین کی کئی ملین سالوں کی تاریخ کو پیش کرتا ہے توپیدایش کی کتاب کے بیان کے برعکس انسان کے اِس زمین پر آنے سے کئی ملین سال پہلے سے موت، مسلسل جدوجہد اور بیماریوں کا سلسلہ جاری رہا ہوگا۔ الہیاتی ارتقاء ایک نیا تصور ہے جو پیدایش کی کتاب کے بیان کو ارتقاء کے کئی ملین سالوں کے تصور میں ضم کرنے کوشش کرتا ہے۔ الہیاتی ارتقاء کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ خُدا کےسارے تخلیقی معاملے میں مداخلت کرنے اور باغ عدن کی تخلیق سے پہلے کئی ملین سالوں تک اِس زمین پر موت کا کھیل چلتا رہاتھا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو الہیاتی ارتقاء کے حامی چاہتے ہیں کہ خُدا کئی ملین سالوں کے دوران ہونے والی اموات، دکھوں اور تکالیف کو "بہت اچھا" قرار دے۔

دوسری طرف اگر یہ فوسل ریکارڈ عالمگیر طوفان کی پیداوار ہے جس میں لا تعداد جاندار یک دم کیمیائی مواد سے بھرپور پانی اور چٹانی رسوب کے اندر دب گئے تھے تو کئی ملین سالوں کی تاریخ کو فرض کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ایک کامل دُنیا کا گناہ کی وجہ سےلعنت زدہ ہو کر پانی کے طوفان کی بدولت تباہ ہونے کا الہٰی بیان (پیدایش 6-9ابواب)اِس دُنیا کے اندر موجود فوسلوں کے ریکارڈ کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے۔

اگر سب کچھ ارتقاء کے باعث وجود میں آیا ہے اور ارتقائی داستان ہی سچی ہے تو خُدا کا مستقبل میں "تمام چیزوں کی بحالی" (اعمال 3باب21آیت)کا وعدہ بالکل نا معقول ہوگا۔ صرف وہ بنیادی مخلوقات ہی جو ابتدائی طور پر موت اور مصیبتوں سے آزاد تھیں خُدا کے بحالی کے وعدے کو منطقی بناتی ہیں۔ اگر دُنیا کے آغاز میں مخلوق کامل نہیں تھی تو پھر مستقبل کی بحالی کا وعدہ ویسی ہی کامل مخلوق نہیں ہو سکتا۔

Two views of death

شفقت اور رحم کہاں سے آئے؟

جبکہ نظریہ ارتقاء کے بہت سارے حامی اِس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ ایک محبت بھرا خُدا ایک ایسی ظالم دُنیا کے ساتھ جس میں ہم جی رہے ہیں کوئی ہم آہنگی اور مطابقت نہیں رکھتا، لیکن وہ بہت ساری اہم چیزوں اور باتوں کو نظری انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر نظریہ ارتقاء رحم ، خیرات اور شفقت و پرواہ کی کیا تعریف کرتا ہے؟اگر نظریہ ارتقاء سچا ہے تو پھر فطرت کی سب سے بڑی قوت "موزوں ترین جانداروں کی بقاء" ہے۔ جو کمزور یا دوسروں سے کم اہل ہیں اُن کا مقدر اِس نظریے کے مطابق صرف اور صرف موت ہے۔ ایسے کم اہل اور کمزور لوگوں کو بچانے کی کوئی بھی کوشش حقیقت میں فطرت کی بنیادی ترین قوت کے خلاف کام کرنے کے مترادف ہوگا۔ ڈاکٹروں، ہسپتالوں، خیراتی اداروں اور یہاں تک کہ پولیس کے محکمے کا وجود بھی ارتقائی قوتوں اور اصولوں کے خلاف ہے۔

نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے پاس اخلاقیات کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ اگر انسان کئی ملین سالوں کے ارتقائی عوامل کا نتیجہ ہے تو پھر ہمارے رویوں کی بنیاد تومحض اتفاقی اور بے ترتیب کیمیائی عوامل ہیں۔ کوئی حتمی اخلاقی قانون نہیں ہے۔ ہرطرح کی اخلاقیات نسبتی ہے۔ تو پھر اگر کسی شخص کو پیسوں کی ضرورت ہے تو اُس کے لئے کسی کو لوٹنا کیوں بُرا ہے؟ارتقاء کے مطابق تو طاقتور شخص کو کامیاب ہونا چاہیے۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ بالکل درست ہوگا۔ پس ارتقائی خیال سے ایسا تشدد اور ظلم تو بالکل فطری اور اِس دُنیا کا لازمی حصہ ہے۔

وہ لوگ جن کا نظریہ حیات بائبل کی بنیاد پر ہے اُن کے پاس رحمدلانہ ، خیراتی اور شفقت آمیز کاموں کے لئے ایک مناسب بنیاد اور جواز موجود ہے۔ ہمیں کلام مقدس میں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے ہمسائے سے اپنی مانند محبت کریں، دوسروں پر رحم کریں اور بیواؤں اور یتیموں کی پرواہ اور دیکھ بھال کریں۔ اگر ہم اِس معاملے میں ارتقاء کے منطقی نتیجے کو سامنے رکھیں تو پھر اِن تمام یتیموں اور بیواؤں کو تو مر جانا چاہیے کیونکہ یہ نا اہل ہیں اور فطرت کے وسائل پر بوجھ ہیں۔

صرف بائبل پر ایمان رکھنے والے ہی اِس دُنیا کو حتمی طور پر اخلاقیات کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ وہ سب جو بائبل مقُدس کو رد کرتے ہیں اُن کے پاس اخلاقیات اور اخلاقی کاموں کے لئے کوئی بنیاد یا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔

تو پھر شخصی/ذاتی مصیبتوں کےمتعلق کیا؟

یوحنا 9باب میں یسوع کچھ ذاتی اور شخصی مصیبتوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ جس وقت اُس کے شاگرد یہ فرض کر رہے تھے کہ نابینا شخص کا اندھا پن اُس کے گناہوں کی وجہ سے تھاتو یسوع نے جواب دیا کہ "نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اِس لئے ہوا کہ خُدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں۔"(یوحنا 9باب3آیت)یسوع نے اُس آدمی کی مصیبت کو فضول یا نامناسب نہیں سمجھا کیونکہ اُس کی وجہ سے اُس شخص کی زندگی میں خُدا کے نام کو جلال ملنے والا تھا۔

یسوع لعزر اور اُس کے غمزدہ خاندان سے پیار کرتا تھا، لیکن وہ اُن کے اُس غم میں ایک واضح مقصد کو دیکھ سکتا تھا جسے وہ دیکھنے سے قاصر تھے

ایوب کی کتاب ہمیں ایک راستباز آدمی کی کہانی بتاتی ہے جو ہر ایک بات میں خُدا کی خوشنودی کا خیال رکھتا تھا اِس کے باوجود اُس کو اپنی ساری دولت کا ، اپنے دس بچّوں کی زندگیوں کا اور اپنی صحت کا بھی نقصان اُٹھانا پڑا۔ اُس کے دوست اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اُس کی ساری مصیبتیں اُس کے کچھ خفیہ گناہوں کی وجہ سے تھیں لیکن خُدا نے اُن کے اُس الزام کو مسترد کر دیا۔ بہت سارے لوگوں کو اِس بات کو جاننے سے حوصلہ ملا ہے کہ اُن کی زندگی میں آنے والی مصیبتیں خُدا کے طرف سے اُن کے گناہوں کی عدالت کرنے کی وجہ سے نہیں ہیں۔

جس وقت لعزر بیمار تھا اور قریب المرگ تھااُس وقت یسوع نے ہم پر یہ ظاہر کیا کہ اُسکی ہمارے لئے محبت ہماری ذاتی مصیبتوں اور تکلیفوں سے بے آہنگ نہیں ہے۔ "یسوع نے سن کر کہا کہ یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خُدا کے جلال کے لئے ہےتاکہ اُس کے وسیلہ سے خُدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو۔اور یسوع مرتھا اور اُسکی بہن اور لعزر سے محبت رکھتا تھا۔"(یوحنا 11باب4-5آیات)

یسوع لعزر اور اُس کے غمزدہ خاندان سے پیار کرتا تھا، لیکن وہ اُن کے اُس غم میں ایک واضح مقصد کو دیکھ سکتا تھا جسے وہ دیکھنے سے قاصر تھے۔یسوع نے (لعزر کو مرُدوں میں سے زندہ کر کے)اُن پر یہ بات واضح کر دی کہ صلیب پر اپنی موت اور جی اُٹھنے سے بھی پہلے اُسے موت پر مکمل اختیار حاصل تھا۔

یسوع نے شیلوخ کے برج کے گرنے اور اُس کی زد میں آکر مرنے والے اٹھارہ لوگوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے المیوں کے مقصد کے حوالے سے بات کی ہے "یا کیا وہ اٹھارہ آدمی جن پر شیلوخ کا برج گرااور دب کر مر گئے تمہاری دانست میں یروشلیم کے اور سب رہنے والوں سے زیادہ قصور وار تھے؟میَں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں بلکہ اگر تم توبہ نہ کرو گے تو سب اسی طرح ہلاک ہوگے۔ (لوقا 13باب5-4آیات)

یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی شخص کی ذاتی مصیبت اُس کے کسی اپنے گناہ کی وجہ سے ہو، بلکہ گناہ جو اِس دُنیا میں پہلے سے موجود ہے اُس کی بدولت بہت ساری مصیبتیں آتی رہتی ہیں۔خُدا مصیبتوں کو ایک یاددہانی کے طور پر استعمال کر سکتا ہے کہ گناہ کے بُرے اثرات ہوتے ہیں – اور غالباًکچھ دیگر مقاصد بھی ضرور ہونگے جن کا ذکر ہم اِس باب میں نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن مصیبتوں کا موجود ہونا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ خُدا ہم سے پیار نہیں کرتا، بلکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے-یسوع اِس زمین پر آیا اور ہمارے ساتھ اور ہماری خاطر بہت سارے دکھ اُٹھائے اور اپنی جان دینے کے وسیلے ہمارے گناہوں کا کفارہ اداہ کیا حالانکہ اُسے ایسا کرنے کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔

اپنے مصائب میں مسیحی لوگ خُدا پر ایمان رکھتے ہوئے اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ وہ اُن سے پیار کرتا ہے اوراُن کی زندگی میں مصیبتوں کا کوئی اچھا مقصد ہے خُداوند کے نام کو جلال دیتے ہیں۔ اِس دُنیا میں دکھوں اور تکالیف کی موجودگی ہمارے لئے اِس بات کی یاددہانی ہونی چاہیے کہ ہم گناہگار ہیں اور گناہ کی وجہ سے لعنت زدہ دُنیا میں رہتے ہیں، اور اِس چیز سے ہمیں یہ تحریک بھی ملنی چاہیے کہ ہم مسیح کے وسیلے میسر نجات کے بارے میں لوگوں کو بتائیں – کیونکہ یہ عمل دوسروں کو حقیقی محبت دکھانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم لوگوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ بھی اِس لعنت زدہ دُنیا سے نجات پا سکتے ہیں اور ابدی طور پر کامل اور بھلے خُدا کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔

کیونکہ ہماری دم بھر کی ہلکی سی مصیبت ہمارے لئے از حد بھاری اور ابدی جلال پیدا کرتی جاتی ہے۔

جس حال میں کہ ہم دیکھی ہوئی چیزو ں پر نہیں بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں کیونکہ دیکھی ہوئی

چیزیں چندروزہ ہیں مگر اندیکھی چیزیں ابدی ہیں۔(2کرنتھیوں 4باب 17-18آیات)

Footnotes

  1. Associated Press, Ted Turner was suicidal after breakup, www.nytimes.com/aponline/arts/AP-People-Turner.html, April 16, 2001.

  2. A. Desmond and J. Moore, Darwin: The Life of a Tormented Evolutionist, W.W. Norton & Company, New York, 1991, 387.

  3. The Bible is not clear when Lucifer rebelled or when Adam and Eve sinned. However, we can surmise that it was not too long after God put Adam and Eve in the Garden of Eden, as He told them to be fruitful and multiply, and they obviously had not had an opportunity to conceive a child before they rebelled.

  4. C. Sagan, Cosmos Part 2: One Voice in the Cosmic Fugue, produced by Public Broadcasting Service, Los Angeles, with affiliate station KCET-TV. First aired in 1980 on PBS stations throughout the US.

ترجمہ میں مدد کریں۔

براہ کرم اردو میں مزید مواد فراہم کرنے میں ہماری مدد کریں۔

ترجمہ میں مدد کریں۔

Visit our English website.