کائنات میں موجود سب کچھ یعنی ہر پودا اور جانور ، ہر چٹان ، مادے کاہر ذرہ اور روشنی کی لہر اصولوں کی پابند ہے اور اِن سب کے پاس اور کوئی چارہ نہیں سوائے اِس کے کہ اِن اصولوں کے تابع رہیں۔بائبل مُقدس بیان کرتی ہے کہ فطرت کے اصول یعنی "آسمان اور زمین کا [مقرر کردہ ]نظام "موجودہے ( یرمیاہ 33باب 25آیت ) ۔ یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ خُدا کائنات میں اپنی مرضی کیسے پوری کرتا ہے ۔
خُدا کا منطق اس کائنات میں قائم ہے اور یہ کا ئنات نہ تو اتفاقیہ ہے اور نہ ہی خود کار۔ یہ کیمیائی اصولوں کے تا بع ہے جوکہ منطقی طور پر طبیعیاتی اصولوں سے اخذ کئے جا سکتے ہیں جن میں سے بہت سارے اصولوں کومنطقی لحاظ سے طبیعیات اور ریاضی کے دیگر اصولوں سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ قدرت کے سب سے بنیادی اصول اِس لئے وجود رکھتے ہیں کیونکہ یہ خُدا کی مرضی ہے۔ یہ اصول در اصل وہ منطقی اور با ترتیب طریقہ ہے جس کے ذریعے خُدا اپنی تخلیق کردہ کائنات کو برقرار اور قائم رکھتا ہے۔ ایک دہریہ کائنات کی منطقی اور با ترتیب حالت کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ اگر کوئی قانون ساز ہستی موجود نہیں ہے تو پھر کائنات اِن قوانین یا اصولوں کو کیوں مانتی ہے؟ لیکن فطرت کے اصول بائبلی تخلیق کے ساتھ مکمل طورپر موافقت رکھتے ہیں۔ دراصل بائبل ہی فطر ی اصولوں کی بنیاد ہے۔ پس یقنی طور پر نظریہ تخلیق کے حامی فطرت کے اِن اصولوں کا انکار نہیں کرتے کیونکہ فطری اصول بالکل ویسے ہیں جیسا ہونے کی تخلیق کے حامی توقع کرتے ہیں۔
زندگی کے متعلق ایک مشہور اصول پا یا جاتا ہے: حیاتیاتی تولیدکا اصول ۔ یہ اصول سادہ طور پر یہ بیان کرتا ہے کہ زندگی ہمیشہ زندگی ہی سے آتی ہے۔ اور یہی وہ بات ہے جو ہمیں مشاہداتی سائنس بھی بتاتی ہے کہ نامیاتی اجسام اپنی جنس کے موافق دوسر ے نامیاتی اجسام کو پیدا کرتے ہیں۔ تاریخی طور پر لو ئس پاسچرنے[زندگی] کی ایک قسم کی از خود پیدایش کے تصور کو باطل ثابت کیا ہے، اُس نے یہ دکھایا ہے کہ زندگی پہلے سے موجود زندگی ہی سے جنم لیتی ہے۔ اُس وقت سے لیکر ہم نے دیکھا ہے کہ یہ اصول اب کسی طرف سے بھی کسی اعتراض کے بغیر عالمگیر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور یہ بات بالکل ویسی ہی ہے جس کی ہم بائبل سے توقع رکھتے ہیں ۔
براہ کرم اردو میں مزید مواد فراہم کرنے میں ہماری مدد کریں۔
Visit our English website.